Grab Dil Bhatkay Ga / دل بھٹکے گا Curated By Ahmad Bashir Digital

اپنے آپ سے نفرت ہے
یا یوں کہوں کہ مجھے اپنی اس عادت سے نفرت ہے کہ میں ہر اس چیز سے دور بھاگتا ہوں جو باقی لوگوں کو بھا جائے چاہے وہ کتنی اچھی ہی کیوں نہ ہو
سنگ میل پبلیکیشنز سے بھی ایسی ہی چڑ ہے. انکی کتابوں کے داموں کی زیادتی الگ
Grab Dil Bhatkay Ga / دل بھٹکے گا Curated By Ahmad Bashir Digital
معاملہ ہے. اسی نفرت کے باعث یہ کتاب مجھ سے چھپی رہی
پتہ نہیں یہ کیسے سامنے آئی تھی اور مجھے یاد آیا کہ احمد بشیر کا ذکر ممتاز مفتی کی الکھ نگری میں بھی تھا. پھر پتہ نہیں کیسے یاد آیا کہ آپ بشری انصاری سمیت چار ہونہار بیٹیوں کے باپ بھی تھے پھر اس سے پرانا پی ٹی وی کا پروگرام "خراج تحسین" یاد آیا اور اس سے یاد آیا کہ آپ نے پاکستان میں ایک آرٹ فلم بنانے کی غلطی بھی کی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہاں کے عوام و خواص مجرے اور رقص میں فرق روا نہیں رکھتے انکی آرٹ فلم کیا خاک سمجھیں گے
آخر میں صف دوستاں میں شامل مجاہد خان کی رائے نے اسکو خریدنے پر مجبور کردیا
کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اس کتاب کے کون سے پہلو کی تعریف کروں یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ مجھے کتاب پسند آئی ہے یا احمد بشیر
بے باک یار باش بیٹیوں سے محبت کرنے والا پکا سوشلسٹ خوبصورت مہم جو عاجز دیہاتی ذہین
اور سب سے اہم بات ان دو شخصیات کا بہترین دوست جنکی کتابیں بچپن میں چاٹ جانے کی وجہ سے راقم کی کھوپھڑی آج تک الٹی ہے. ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب کا دوست
اگر آپکو پاکستان بننے سے پہلے سے لے کر بھٹو کی پھانسی تک کی غیر جانبدارانہ تاریخ چاہئیے تو یہ کتاب آپکی چارپائی کے سرہانے کی زینت یونی چاہیے
اگر آپ سچے شخص اور باغی شخص کی ذلت کا تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب آپکی اخلاقی بلندی کے لئے ضروری ہے. جن شخصیات کا نام انھوں نے تبدیل کیا ان میں نے بہت کم کو پہچانا جا سکا ابن انشا بنام بیدل ایک اہم مثال ہے باقی سیاست کے میدان کے کچھ لوگ بھی پہچانے جاسکتے ہیں
مجھے احمد بشیر جیسے ناکام آدمی سے عقیدت ہو گئی ہے
انھیں خوشی ہوگی کہ انکا بیٹا بھی انھی کی طرح سچ بولتا ہے اپنے باپ کو اسکے منہ پر ہی ناکام بولنا احمد بشیر کے بیٹے کی ہی ہمت ہوسکتی ہے

اس کتاب کا وصف یہ ہے کہ یہ تین ہزار صفحات سے گھٹ کر ایک ہزار تک تو آئی ہے مگر اس میں کوئی فقرہ ایسا نہیں ہے جو کاٹ کر دوبارہ لکھا گیا ہو. یعنی اختصار کی مجبوری میں سچ کی کاٹ انکا قلم جانتا ہی نہ تھا کاش کہ میں نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہوتی

دل بھٹکے گا از احمد بشیر ایک سوانحی ناول ہے جس میں مصنف نے اپنی زندگی کے شب و روز کا احوال بے باک انداز سے بیان کیا ہے وہ بہت باکمال ہے
تقسیم ہند سے پہلے شروع ہونے والی داستان میں اصل رنگ تقسیم سے شروع ہوتا ہے تقسیم تو ایسی بہتی گنگا ثابت ہوئی جس میں اشنان کرنے والوں کو مصنف نے دیکھ لیا جنگمعاہدہ تاشقند سقوط ڈھاکہ بھٹو کا دور حکومت پھانسی ضیاالحق افغان وار اور آخر ضیاالحق کی موت تک ہر رنگ کو بیان کیا ہے
دورہ امریکہ میں فلم میکنگ کا کورس اور پاکستانی فلمی صنعت میں گزارے گئے ایام کا احوال نہایت دلچسپ ہے
عورت کے معاملے میں مصنف ممتاز مفتی کے شریر مرید تھے ممتاز مفتی بیدل اور مولانا چراغ حسن حسرت کے صحبت میں گزرے ایام مصنف کے کردار کی تشکیل میں نہایت اہم ثابت ہوئے جابجا اس میں نکھار مختلف شہروں میں گزارے ہوئے وقت سے ہوا قدرت اللہ شہاب کا تصور جو شہاب نامہ سے تشکیل پاتا ہے اس میں گھر کا بیدی لنکا ڈھاتا ہےکے بعد کا احوال کافی مختصر بیان ہوا ہے
علی پور کا ایلی کے ساخت پر لکھا گیا یہ ناول ہے لیکن یہ اس سے بہت مختلف ہے زبان پر مصنف کی گرفت قابل تعریف ہے نہایت خوبصورت اردو لکھی ہے
ڈش وی سی آر کیبل کمپیوٹر اور آئی ٹی انقلاب کے آنے سے پہلے کے معاشرے کے افراد کی تفریحات اور ترجیحات الگ تھی اور شائد اس وجہ سے طوالت قارئین کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور اشاعتی خرچ کم ہونے کی وجہ سے اس طرح کی کتب چھپ جاتی تھی لیکن آج یہ دونوں باتیں مشکل ہیں
اس کتاب کو پاکستان کے دو ممتاز پبلشرز نے شائع کیا ہے سنگ میل پبلیکشنز اور فیروز سنز لمیٹڈ یہ حیران کن ہے فیروز سنز لمیٹڈ نے بہرحال اچھے انداز سے شائع کیا ہے تقریبا نو سو صفحات اس ناول کی قیمت پندرہ سو روپے ہے پانچ ستارے کے مستحق یہ کتاب ہے

کاش آج کوئی احمد بشیر ہو جو ہمیںسے آگے گزرنے والی قیامتوں کا احوال لکھے

از فیصل مجید یہ کتاب معروف سوشلسٹ احمد بشیر کی سوانح عمری ہے vvv اس ناول کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اتنا طویل اور ضحیم ہونے کے باوجود بھی آپ ایک صفحہ بھی پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے بچپن کی یادیں جوانی کا عشق اور پھر باقی زندگی کے مصائب انتہائی اعلی پائے کی نثر For Indian author of the same name click here: sitelink Ahmad Bashir For Indian author of the same name click here: sitelink Ahmad Bashir sitelink.