Fetch Kaghazi Ghaat / کاغذی گھاٹ Depicted By Khalida Hussain Presented As Copy
حسین کی کاغذی گھاٹ
اگست قریب الاختتام ہے وہی اگست جس کے بارے فکر تونسوی نے چھٹا دریا لکھی اور بھیشم ساہنی نے تمس آج صبح ہوا میں کسی قدر خنکی موسم کی کروٹ کا پیشگوئی اشارہ ہے بھادوں کی دس تاریخ ہے وہی بھادوں جس کے بارے اماں کہتی ہے بدرا بدر بلا ساوݨ ہووے ہا گھر سے کچھ ہی فاصلے پر دریائے چناب اپنی مٹی اور پانی دونوں لئے بہہ رہا ہے سن دو ہزار دس کے سیلاب کے بعد گاؤں کی سڑک دو ہزار اکیس میں تعمیر ہو رہی ہے گھر کے آنگن میں پیپل کا پیڑ ہے جس پر صبح و شام کوے ناچتے رہتے ہیں ایک کوئل کی کوک بھی کبھی کبھار سننے کو ملتی ہے اماں کہتی ہے یہ وہی کوئل ہے جس کا جامن کے پیڑ پر گھونسلہ تھا وہ پیڑ چونکہ اب نہیں رہا تو اس نے پیپل پر آ بسیرا کیا ہے پیڑ کے سائے میں خالدہ حسین کی کتاب کاغذی گھاٹ پر لکھنے بیٹھا ہوں
نرمل ورما دھروشکل کے فن کے اثرات کے بارے جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں یہ شاید فن کا سب سے بڑا عطیہ ہے جو وہ ایک بونس کی شکل میں ہمیں عطا کرتا ہے کہ ہم دنیا کو زیادہ تیز اور حساس نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں پہاڑ پھر اس طرح کے نہیں لگتے جیسے کہ وہ ہیں بلکہ وہ اپنے ساتھ اپنی وہ پرچھائیں بھی لے آتے ہیں جو ہم نے کہیں کسی لینڈ اسکیپ میں دیکھی تھی خالدہ حسین کو پڑھنا ایسا ہی تجربہ حاصل کرنے کی مانند ہے ہمارے گونگے احساسات کو خالدہ حسین کی تحریریں زبان بخشتی ہیں
ناول کے کئی کردار ہیں ہر کردار کا اپنا دکھ ہے اور اپنے آپ میں مکمل ہے تین مرکزی کردار ہیں ان کرداروں کے ذریعے خالدہ آپا عورت کے وجودی بحران سماجی اور طبقاتی فرق کو ظاہر کرتی ہیں راجہ فیملی کی عجب کہانی تھی اول تو ان کے نام ہی میں طبقاتی بو تھی راجہ رانی رعایا لوگ بھیڑ یہ سب کچھ تو کہانیوں میں ہوتا ہے اگر اصل زندگی میں بھی یہ سب لوگ آ جائیں تو کیسا دہشت ناک ہے ہندوستان کی تقسیم کا غم اور پھر سقوط ڈھاکہ کا غم نمایاں موضوع نہ سہی پھر بھی کربناک حد تک ناول کا حصہ ہیں یہاں کے سب لوگ کہاں گئے ہوں گے اس نے ایک کمرے میں ٹھہر کے سوچا غسل خانے میں دروازے کی کنڈی کے ساتھ سرخ چوڑیاں لٹک رہی تھیں وہ ٹھٹک گئی
خالدہ آپا سماجی سطح پر عورت کی نمائندگی اس ڈھنگ سے کرتی ہیں کہ جو سماجی عناصر ہیں وہ معنوی پہلوؤں میں اجاگر ہوکر جذباتی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں یہ وہ شعور ہے جو تحریر کو وسعت دے کر اس کا کینوس بلند کرتا ہے اسی ڈھب سے ہی ایک لکھاری اور قاری کے مابین معنوی اور اٹوٹ رشتہ قائم ہوتا ہے ان کے یہاں زندگی کو جھیلنے کی نہیں جینے کی خواہش ہے آرزو جس کا اپنا ہی تکمیل کا دائرہ ہے یہ وجود اور اس سے جڑے احساس کے درمیان ایک ایسا مکالمہ ہے جو روسی لکھاری اینا آخماتووا کی بے نام آرزوؤں کی طرح مکمل اور معنویت سے لبریز ہے
محمد حمید شاہد صاحب کاغذی گھاٹ پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ناول کا ابتدائی حصہ کافی سست روی کا شکار رہتا ہے اس کی وجہ وہ خالدہ آپا کی ایک تکنیک کہانی سے دوسری تکنیک ناول کی طرف سفر کو لکھتے ہیں خالدہ آپا ڈاکٹر نجیبہ عارف کے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں کہ وہ کاغذی گھاٹ میں اپنی ہی کہانی لکھنا چاہتی تھیں مگر پھر کردار بنتے گئے اور یہ ایک ناول کی شکل بن گئی ناول میں مونا کے کردار میں وقتا فوقتا خالدہ آپا کی جھلک نظر آتی ہے یہی وہ کردار ہے جس کے ذریعے خالدہ حسین خودکلامی کی تکنیک استعمال کرکے موضوع اور کردار کی تہہ میں اتر جاتی ہیں شاید یہی وہ کشمکش ہے جس کی وجہ سے ابتدا میں قاری کو کسی قسم کی سست روی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
یہ ایک ایسی تحریر ہے جس میں ایک لمحہ سے دوسرے لمحہ تک کی داستان ہے ہر لمحہ پورے وجود کے ساتھ وقوع پزیر ہو کر اثر چھوڑ رہا ہے یہ لمحوں کی داستان روحانیت کا ایک گمبھیر اور خاموش تجربہ ہے جو ہرگز تحریر کو کثیف نہیں کرتا ہر ایک لفظ اور خیال بلکہ تجربہ سینچ سینچ کر نازل ہو رہا ہے نہ تو اس تحریر کو انجام کی فکر ہے اور نہ ہی ناقد کی تنقید کی
یہ ایک نوحہ ہے انسانیت کا نوحہ اس تمام استحصال کا نوحہ جو تقسیم ہندوستان سے شروع ہو کر وقت بہ وقت گہرا سے گہرا ہوتا گیا ہے اور مزید سے مزید تر ہو رہا ہے یہ ایک عورت کا نوحہ ہے جس کا وجود اپنے مکمل احساس کے ساتھ ہے مگر اسے جینے کی سختیاں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں جسے معاشرہ اپنی دقیانوسی پدری اناؤں کو روایات کا چولا اوڑھا کر مسلط کیئے جا رہا ہے زندگی گزرانے کی بجائے جھیلنے پر مجبور کیا جارہا ہے یہ عورت کا عورت ہونے کا نوحہ ہے زندگی جو ایسی نایاب ہے ایک جنس میں ڈھال دی جاتی ہے
تحریر کے اختتام کو پہنچتے ہی ایک بلبل میرے سر پر بول رہی ہے لگتا ہے چناب سے سیر ہو کر آئی ہے اب کی بار سوچتا ہوں کہ اگست کوئل کی کوک اور بلبل کی بولی سے یاد رکھوں مگر اگست کا لہو اتنی آسانی سے فراموش بھی نہ ہوگا اور نہ ہی خالدہ حسین کی کاغذی گھاٹ کے اثر سے کوئی نکل پائے گا تبصرہ نگار: محمد فاروق بیگ
معروف علامتی افسانہ نگار خالدہ حسین کا ناولکاغذی گھاٹ ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا اس ناول میں ناسٹلجیا ہے ناول کے آغاز میں تین لڑکیوں کا تعارف ہے تینوں کے مزاج خیالات اور طبیعت ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے مونا افروز اور عائشہ مونا کے سکول اور کالج دور کے ساتھیوں میں انقلابی خیالات کے حامل بھی ہیں اور لایعنی زندگی گزارنے والے بھی جن کی زندگی کا مقصد مادی آسائش کے حصول کے علاوہ اور کچھ نہیں وہ سکول اور کالج کے دنوں کو شدت سے یاد کرتی ہے:سب سے پر اسرار وہ ہال تھا جس کی اسٹیج پر طرح طرح کے ڈرامے ہوتے جن میں رقص ضرور ہوتا اور انہی دنوں یہ گیت بہت گایا جاتا کہ ناچو ناچو پیارے من کے موراور اس اسٹیج پر وہ ڈرامہ بھی ہوا جس میں آزادی کا کوئی متوالا پھانسی چڑھ جاتا ہے اور پھانسی کے لیے بے شمار رنگیں دوپٹوں کو بٹ کر جنگلے کے ساتھ باندھا گیا اور اسٹیج کے وسط میں ایک رنگین ریشمی پھندا لٹکایاگیااب یہ ہمالہ بھی ایک عجیب ہیئت تھیکبھی کوئی موٹا تازہ سیاہ فام سر پر سفید براق پگڑ پہنے اس کی نظروں میں گھوم جاتا
مونا کی قوت مشاہدہ بہت اچھی ہے وہ حالات کے بدلتے منظر اوران کے انسانی زندگیوں پر اثرات کے ساتھ ساتھ رسوم و رواج کے خراب اثرات پر غور و فکر کرتی ہے وہ انسانوں کی بھیڑ میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہے اس کے سرکاری ملازم اور مذہبی والد والدہ اور دیگر لوگ قدیم خیالات کے حامل ہیں مثنوی مولانا روم اس کے والد کی پسندیدہ ہےبڑے ابا اس کو لوئی کی بکل میں لیے مثنوی مولانا روم پڑھتےکبھی کبھی ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے پھر وہ
تاریخ اسلام کا کوئی باب لے کر بیٹھ جاتے حضرت خالد بن ولید کی تیغ فضائوں میں بجلی کی طرح لہراتی تڑپتی الاماں الاماں کی پکار اٹھتی گھوڑوں کی ٹاپیں اس کے دل کی بائولی دھڑکن کے ساتھ مل جاتیں سازشوں کے جال بچھتے ایک سرد آہ پھر ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ پڑھ کے اس پر اور چاروں سمت دم کرتے سیدی انت حبیبی و طبیب قلبی
ناول کے تین نسائی کرداروں کے ذریعے خالدہ حسین نے تین مختلف فلسفۂ حیات بیان کیے ہیں مونا عائشہ اور افروز تینوں کردار اپنے اپنے مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں مصنفہ نے ناول میں ان کرداروں کویوں بیان کیا ہے: عائشہ اور افروزایک دوسرے کا تضاد تھیں ایک کسی بھی تہذیب کسی بھی کلچر کی دعوے دار نہ تھی جبکہ دوسری کے پاس صدیو ں کا تہذیبی ورثہ تھا جس سے بچھڑ کر وہ گویا بہت غیر ترقی یافتہ نیم مہذب لوگوں میں آگئی تھی یہاں کے لوگ آداب محفل سے قطعی نا آشنا زبان و بیان کی لطافت اور شائستگی سے عاری کھردرے اور اجڈ تھے عائشہ کی تراش خراش اس طرح کی جا رہی تھی جس طرح کے ایک خاص عمرمیں لڑکیوں کی سوسائٹی میں متعارف کرایا جاتا ہے جبکہ وہ خود موٹا خوف اور تحفظ کی دھوپ چھائوں میں کھوئی ہوئی تھی
کچھ مافوق الفطرت اور پراسرار کردار اور کہانیاں جو کہ ہمارے قدیمی معاشرے کا حصہ ہیں ان کا تذکرہ بھی ہے ملنگ مجذوب اور پیر بھی اس ناول کے کردارہیںان کرداروں کا مشاہدہ مونا قریب سے کرتی ہے:نانی کے پاس کوئی بہت انہونی پر اسرار داستان تھی یہاں پر ایک غیر حاضر شخصیت کا سحر طاری تھا ماما عبداللہ اور بابا غلام محمد دونوں ہی سائیں توڑی شاہ کے مجاور بن چکے تھے ماما کو اکثراشارے اور الہام ہوا کرتے تھے ان کا جنون ان کے کچھ بیٹوں میں بھی سرایت کر گیا تھا لہذا انہوں نے قوال پارٹی بنا رکھی تھی
مونا اپنے گھرمیں الگ خیالات کی حامل ہے وہ ذرا آزادخیال ہے اور اپنے گھریلو ماحول اور نظام پر اندر ہی اندر نالاں ہے پر کسی سے اظہار نہیں کرتی مونا کا ایک بھائی اس کا ہم خیال ہے اس گھر میں اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے وہ سو چتی ہے: اپنی دنیا کا حصار پا ر کرتے ہوئے اس پر شدید خوف اور آزردگی طاری ہو جاتی تھی مگر وہ کتنے جوش و خروش کے ساتھ یہ انقلابی نظمیں پڑھتی تھی اسے دور دراز کے شہروں کا احساس ہونے لگا کتنے بے شمار شہر ہوں گے اور ا ن لوگوں کے گھراس نے دہلی اور لدھیانے کا تصور کرنا چاہامگر اس نے تو خود لاہور ہی جی بھر کے نہ دیکھا
اس کی قریبی سہیلی افروز بائیں بازو کی انقلابی نظریات کی حامل ہے وہ اسے عصمت چغتائی کی کتب تھما دیتی ہے اور مونا سے بائیں بازو کے مصنفین کی باتیں کرتی ہے افروز کہتی ہے: اس آہنی نظام کو اس شکنجے کو توڑنا اتنا آسان نہیںاس راہ میں کوئی ساتھ نہیں دیتابس ایک طوق سے نکل کر آدمی دوسرے میں اسیر ہے
اوراپنے نظریات بیان کرتے ہوئے وہ مزید کہتی ہے: اب انقلاب آنے والا ہے کیونکہ کسا ن پر بہت ظلم ہو رہا ہے اور زمیندار اور جاگیر دار انتہائی سفاک لوگ غریبوں کو بھوکا مار رہے ہیں اور درانتی کا نشان اب انسانیت کا پرچم بن رہا ہے اور روس تمام دنیا کو ظلم و ستم سے نجات دلا سکتا ہےاب وہ کرشن چندر اور بیدی اور منٹو اور پریم چند اور ترقی پسند افسانوں کے مجموعوں پر مجموعے لا کر اس کی تربیت کرتی رہتی پھرسب جذبی مجاز فیض سردار جعفری سلام مچھلی شہری اور نا معلوم کس کس کو پڑھتے اور انقلابی منصوبے بناتے
افروز ایک دن مونا سے کہتی ہے کہ آپس میں کٹ مرنے میں ہم پر کوئی بازی نہیں لے جا سکتامونا اپنے آپ سے پوچھتی ہے کہ ملوکیت اور قبیلہ پرستی میں کیا فرق ہے یہ کیوں ختم نہیں ہوتے کربلا ہمارے ساتھ ساتھ کیوں سفر کرتی رہتی ہے سابق مشرق پاکستا ن کے المیہ نے کیوں جنم لیا یہ مکتی باہنی والے لوگ اتنے سفاک کیوں تھے ہمارا کلچر کیا ہےوغیرہ یہ سالات اس کے ذہن میں باربار جنم لیتے ہیں
مونا کے خیالات ذرا الگ قسم کے ہیںوہ ہرتاریخی واقعہ کا جواز جاننا چاہتی ہےجیسا کہ محمود غزنوی نے بت شکن کہلوانا کیوں پسند کیاعلائو الدین خلیجی چتوڑ کی رانی پدمنی پر عاشق کیوں ہوا اور چتوڑ پر حملہ کیوں کیاوغیرہ: اور تاریخ پلٹ گئیتاریخ واقعی پلٹ گئی تھیمگر رہ رہ کے اسے علائو الدین خلجی ضرور یاد آتا جس نے راجپوت رانی پدمنی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے چتوڑ پر چڑھائی کی اور آئینہ میں اس کا عکس دیکھ چکنے پر اس کی نیت بدل گئی اور پد منی کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ریاست کی اینٹ بجا دی مگر وہ راجپوت عورتیں بھی خوب تھیں کہ ج ہرکی رسم ادا کرتے ہوئے جل کے راکھ ہو گئیں
خالدہ حسین نے کاغذی گھاٹ میں جاگیر داراورسرمایہ دار کلاس کی تصویر کشی کرتے ہوئے ان کی ذہنی کیفیت اور ان کے حاکمانہ تربیتی نظام پر پھبتی کسی ہے اور اس نظام پر طنز کیا ہےخاص طوران کی خواتین کو نشان زد کیا ہے: لاہور جاگیردارانہ ماحول میں گھرتا چلا جا رہا تھا اپنے بیٹوں کو یورپ برطانیہ اور بیٹیوں کو انگریزی اداروں میں تعلیم دلواتے تھےجو باہر نہ جاتے وہ اکثر لاہور کے چیفس کالجز اورگلیات میں داخلہ لیتے جہاں ان کی رگ رگ میں تحکم اور دولت پرستی بھر دی جاتیجب بھی کسی گھر میں جاتیں دو دو خادمائیں شوخ رنگ لاچوں میں ملبوس جلو میں ہوتیںتب شاید ملکانی ہینڈ بیگ اٹھانا خلاف شان سمجھتی تھیںادھر ان کے بلندو و بالا تندو مند بیٹے لشکتے گھوڑوں پر سوار شہر کی سول لائنز پر اپنی چھپ دکھلاتے پھرتے
کاغذی گھاٹ میں زندگی کے کئی رنگ دکھائی دیتے ہیں کاغذی گھاٹ عورت کا المیہ ہےخالدہ حسین کی ہیروئین مونافلسفۂ حیات پر ہی سوچ بچارکرتی رہتی ہے وہ اپنی زندگی کا حقیقی مقصد جاننا چاہتی ہے دنیا میں لوگوں کی زندگیوں سے سبق حاصل کرکے آگے بڑھنا چاہتی ہے اس کے ساتھ وہ تھوڑی ناسٹلجک بھی ہے زندگی کے اہم لمحات کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:اس کو ان کی تمام باتیں قطعی بے کا ر نظررہی تھیںوہ بات جو ہونا تھی ہو چکی تھیایک مقدر کیا گیا لمحہ وارد ہو چکا تھا اور وہ پہلا موقعہ تھا جب اس نے اس قسم کے لمحے کو محسوس کیا اپنے اندر اور باہر کی دنیا میں جب وہ اس کی وہ حس بیدار ہوئی جس نے اسے بتانا شروع کیا کہ کون سی ساعت ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے آئی ہےکیونکہ اس وقت کائنات تصویر سی ساکت ٹھہر جاتی ہے اور اپنی اس صورت کہیںباطن میں مثبت ہو جاتی ہے
ایک اور مثال ملاحظہ ہواس میں ہلکا سا وقت کا اشارہ بھی ہے:ایک لمحہشاید ایک تیکھی دھار جو ہونے نہ ہونے کے درمیان معدوم سی پیوست تھیبس ایک لمحہ ہی سب کچھ تھاجو کچھ ہم نے آج تک سوچا پڑھا محسوس کیا وہ محض ایک لمحہ ہے کہ رک جائے تو ابد ہو جائےجس کے آگے پیچھے کی کسی کو کچھ خبر نہیںہر شے اپنا مفہوم بدل رہی تھیبدل چکی تھیزمین آسمان گھر ان کے دریچے اور باغ اور اونچی منزلیں اور ممٹیاں سب کچھ اور نظر آرہی تھیںان کے اوپر ایک سرخ لمحہ پھیل رہا تھا جس کے سیاہ پر تھے اور آسمان کے ایک سرے نئے دوسرے تک پھیلے تھے
کاغذی گھاٹ میں تین نسوانی کرداروں نے سرمایہ دارارنہ ترقی پذیر اور ترقی پسند فلسفۂ حیات کی نمائندگی کی ہے خالدہ حسین نے تینوں فلسفہ ہائے کا ایک موازنہ پیش کیا ہے اوران کرداروں کے ذریعے ان فلسفوں کے مباحث پیش کرنے کی سعی کی ہے
.